آج میں لکھنا چاہوں گی کہ ہمیں بطور معاشرہ کس قدر مادیت پرستی نے گھیر رکھا ہے۔ آج میری نظروں سے ایک واٹس ایپ سٹیٹس گزرا جس میں جے ڈاٹ کا ایک مہنگا پرفیوم میری ایک یونیورسٹی دوست نے خریدنے کی ویڈیو ڈالی ہوئی تھی۔
پہلے تو میں آپ کو اس یونیورسٹی دوست کے بارے میں مختصر بتاروں کہ وہ ایک پرائیویٹ سکول میں بطور انگریزی معلمہ جاب کرتی ہے۔ اس کی ماہانہ تنخواه 25 سے 28 ہزار کے لگ بھگ ہے اس کے خاوند بھی پرائیویٹ ادارے میں جاب کرتے ہیں ـ اور ان کا ایک چھ ماه کا بیٹا بھی ہے. گھر تو ان کا اپنا ہی ہے۔ اور آئے روز وہ واٹس ایپ پہ نت نئی ویڈیوز یا تو خاوند کے ساتھ آؤٹنگ کی ڈالتی ہے یا پھر مہنگی ترین شاپنگ کی خاص کر وہ اپنے قیمتی پرفیوم کی ویڈیو ڈالنا کبھی بھی نہیں بھولتی۔
میں تو بس یہ سوچنے پہ مجبور ہوگئی کہ وہ کتنی مشکل سے ایسا لائف سٹائل برقرار رکھ پا رہی ہے۔ اسے تو اکیس توپوں کی سلامی۔
رہی بات معاشرے کی تو بس اتنا ہی کہوں گی کہ جب تک ہم اپنی مہنگی ترین شاپنگ لوگوں کو نہ دکھائیں ہمارا مقصد حیات پورا نہیں ہوتا۔ شاید محترمہ یہ باور کرانا چاھتی ہیں کہ ان کے خاوند ان سے فلمی دنیا والا بے تحاشا پیار کرتے اور جتاتے ہیں اور یہ سب جب تک وه دنیا والوں کو نہ دکھائیں تو ان کو ذہنی سکون حاصل نہ ہو پائے گا۔
لگتا ہے اب دنیا کو دکھانے کے لیے ہی سب کچھ کرنا پڑتا ہے تاکہ داد ملے۔ سب واہ واہ کریں کہ کتنا اچھا خاوند ملا ہے۔ خاوند کو ایک نمائشی شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس پہ بے تحاشا فخر کے ساتھ سب کو ہنس ہنس کر بتایا جاتا ہے کہ میرے خاوند میرے لیے قیمتی تحائف تو کیا اپنی جان بھی قربان کر سکتے ہیں۔
آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ اپنی نجی زندگی کو اتنا شئیر نہ کریں کہ لوگ رشک و حسد سے آپ کی خوشیوں کو نظر لگادیں۔