آج کل کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر وقت اپنا موازنہ دوسروں سے کرتے رہتے ہیں ہم جب بھی دوسروں کے بارے میں کچھ سنتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ایسا کچھ کر رہے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں.
تو میں اپ کو اپنی زندگی کا ایک واقعہ بتاتی ہوں کہ جب میں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ٹیوٹر شپ کرتی ہوں اور انہیں پتہ چلا کہ مجھے اتنے پیسے ملتے ہیں جو کہ اتنی بڑی رقم نہیں ہے خطیر سی رقم ہے. تو ان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے بھی ٹیوٹر بننا ہے. ہوا کچھ یوں کہ جب میں نے اپلائی کیا تھا تو ان میں سے کسی نے بھی اپلائی نہیں کیا اور اس کے بعد تو جابز آئی ہی نہیں.
اب بس انہیں یہیں کھٹکا لگا رہتا ہے کہ یہ بہت کما رہی ہے اسئنمنٹ کے مارکس لگاتی ہے وہاں سے پیسے کماتی ہے۔ وہاں سے میرے کم از کم چھ ہزار آ جاتے ہیں۔ چھ مہینے کے چھ ہزار اور اگر میں دو سمسٹرز کام کروں تو 12 مہینے کے 12 ہزار ا جاتے ہیں.
تو اپ کو پتہ چل ہی گیا کہ میں سال کے صرف 12 ہزار ہی یونیورسٹی کی اسسائنمنٹ سے کما سکتی ہوں اس سے زیادہ میرے پاس کوئی بھی آمدنی نہیں ہوتی. پھر بھی میرے دوستوں کو یہی لگتا ہے کہ میں بہت زیادہ کما رہی ۔ ۔ 12 ہزار نہیں ہیں بلکہ 12 کروڑ ہیں.
تو پھر اب کیا کیا جا سکتا ہے زندگی نے موقع تو انہیں بھی دیا تھا ـ انہیں بھی اپلائی کرنا چاہیے تھا انہوں نے موقع گنوا دیا۔ اب وہ ہاتھ ملتی رہ گئیں اور اب ان کی نظر مجھ پہ ہوتی ہے کہ میں کتنا کما رہی ہوں ۔تو اس موازنے سے ان کی رشک بھری نظریں مجھے بارہا یہ احساس دلاتی ہیں کیوں نہیں احساس کمتری ہونے لگا ہے وہ مجھے ہرانا چاہتی ہیں وہ مجھ سے اگے بڑھنا چاہتی ہیں۔ںو سکتا ہے یہ میرا وہم ہو لیکن مجھے کئی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجھے زندگی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دینا چاہتی ہیں مگر یہ ان کے بس میں نہیں ہے.
تو اس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ موازنہ کسی صورت بھی اچھا نہیں ہوتا. خاص کر کے جب اس سے حسد اور جلن کے جذبات پیدا ہوں.